مومن خاں حکیم نامدار خاں
کے بیٹے حکیم غلام نبی خاں کے فرزند تھے۔حکیم نامدار خاں اور حکیم کامدار
خاں نامی دو بھائی مغلیہ سلطنت کے آخری دور میں کشمیر سے آکر شاہی طبیبوں
میں شامل ہو ئے تھے۔ والی ہنر شاہ عالم نے موضع بلاہا وغیرہ پرگنہ نرنول
میں جاگیر عطا کی جسے بعد میں نواب فیض طلب خاں نے ضبط کر کے ہزار روپے
پنشن حکیم نامدار خاں کے وارثوں کے نام مقرر کر دی ۔ مومن کی پیدائش
1800ءمیں کوچہ چیلان دہلی میں ہوئی۔ ان کے والد غلام نبی خاں کو شاہ
عبدالعزیز دہلوی سے خاص عقیدت تھی۔ شاہ عبد العزیز دہلوی نے ہی تولد کے وقت
ان کے کان میں اذان دی اورمومن خاں نام تجویز کیا۔ حالانکہ والد نے ان کا
نام حبیب اللہ خاں رکھا تھا لیکن وہ شاہ صاحب کے دئے ہوئے نام سے ہی مشہور
زمانہ ہوئے۔ 21مئی سنہ 1851ءکو داعیِ اجل کو لبیک کہا اور ان کا مدفن دلی
دروازے کے باہر حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی رحمت اللہ علیہ کی درگاہ کے پاس
ہے۔
مومن ایک باکمال شاعر تھے۔ وہ حسن و عشق کے معاملات سے اچھی طرح واقف تھے۔ان کا شباب زاہد خشک کی طرح بے لذت نہیں تھا۔بلکہ ان کی محبت ایک رنگیں اور اثر انگیز داستان ہے۔ وہ اس زمانے میں فرہاد اور قیس کے ہمنوا تھے اور شاہراہِ جنوں کی خوب خوب خاک اڑائی تھی:
خاک اڑائی میں نے کیا طرزِ جنونِ قیس کی
شاہ جہاں آباد گویا نجد کا سا بن گیا
غزل کی تو خیر رسومیات الگ ہیں،لیکن مومن مثنویوں میں خوب کھل کھیلتے ہیں۔ ان کی شاعری کا عاشق حقیقی زندگی کا فرد نظر آتا ہے، جس نے بھرپور زندگی گزاری ہو۔ یعنی وجہ ہے کہ ان کے ہاں میر تقی میر جیسی انفعالیت پسندی اور غالب جیسی تجریدیت کا فقدان ہے۔
مومن کے ہم عصروں میں غالب اور ذوق کو نمایاں مقام حاصل ہے لیکن مومن اپنے کلام کی انفرادیت کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ جہاں غالب انتہائی درجہ کے خود پسند شاعر ہیں وہیں وہ مومن کی عظمت کا اعتراف یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ تم اپنا یہ شعر دے دو اور میرا پورا دیوان لے لو:
تم مرے پاس ہو تے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
اس سادگی اور پر کاری سے شعر کہنے پر مومن قادر تھے اور ان کے زمانے میں ہی ان کی غزل گوئی کی شہرت دور دور تک پہنچی ہوئی تھی۔ مومن طبیعت سے غیور اور انا پرست انسان تھے۔ انہوں نے اپنے معاصرین ذوق اور غالب کی طرح کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کیا، اس لیے ان کی شاعری میں بھی خود داری اور خود اعتمادی کا پہلو نمایاں ہیں۔
مومن کے کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے یہاں سادگی کے ساتھ ساتھ پر کاری ہے، جذبات نگاری ہے، کیوں کہ جذبات کو مناسب پیرائے میں ڈھالنے کے فن میں وہ یکتا تھے۔ مومن کی شاعری میں خود کلامی کا عنصر بھی نمایاں ہے۔ خود کلامی بڑی شاعری کا وصف ہے اور مومن خود کلامی کے میدان میں یکتا ہیں:
چل کے کعبہ میں سجدہ کر مومن
چھوڑ اس ُبت کے آستانے کو
ترکِ صنم بھی کم نہیں سوزِ جحیم سے
مومن غمِ مآل کا انجام دیکھنا
مانگا کریں گے اب سے دعا ہجرِ یار کی
آخر کو دشمنی ہے دعا کو اثر کے ساتھ
غیروں پر کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا
میری طرف بھی غمزہٴ غماز دیکھنا
مومن اپنے دور کے شاید واحد شاعر ہیں جنہوں نے امرا و روسا کی شان میں قصیدوں کے گلدستے نہیں سجائے۔ وہ ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز تھے۔ وہ پاک باز انسان تھے۔ دل کے صاف تھے، کسی سے وہ عداوت نہیں رکھتے تھے اسی لیے کسی کے خلاف ہجو بھی نہیں لکھی انہیں ہجوگوئی سے شدید نفرت تھی۔ ایک شعر میں کہتے ہیں:
ہجوگوئی نہیں ہمارا کام
ایسی باتوں سے خامشی بہتر
مومن میں خودداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ خود پسندی بھی تھی۔ اسی لیے انہوں نے اپنے معاصرین میں کسی شاعر کو تسلیم نہیں کیا۔ جب وہ گلستانِ سعد ی کو ایک معمولی کتاب کہتے تھے تب بھلا وہ غالب اور ذوق کو کیوں کر خاطر میں لاتے ان کے یہاں متعدد ایسے اشعار ملتے ہیں جن میں خود آرائی اور خود ستائی ہے:
مومن یہ شاعروں کا مرے آگے رنگ ہے
جوں پیش آفتاب ہو بے نور تر چراغ
حد تو یہ ہے کیا غز ل اک اور مومن نے پڑھی
آج باطل سارے استادوں کا دعویٰ ہو گیا
اپنے ڈھب کی کیا پڑھی اک اورمومن نے غزل
دو ہی دن میں یہ تو کیسا ماہر فن ہو گیا
مومن غزل کے مقطعے خوب اہتمام سے کہتے تھے۔ تخلص میں اپنے نام کی رعایت سے مضمون پیدا کرنا ان کا خاص رنگ ہے جو کسی دوسرے شاعر کے یہاں کم نظر آتا ہے:
عمر ساری تو کٹی عشقِ بتاں میں مومن
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہو ں گے
بے نام آرزو کا تو دل کو نکال دیں
مومن نہ ہوں جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم
رات مسجد میں جا پھنسے مومن
رات کاٹی خدا خدا کر کے
بت خانہ سے نہ کعبہ کی تکلیف دے مجھے
مومن بس اب معاف کہ یاں جی بہل گیا
دوستی اس صنم آفت ایماں سے کرے
مومن ایسا بھی کوئی دشمن ایماں ہو گا
کیوں سنے عرض مضطرب مومن
صنم آخر خدا نہیں ہو تا
مومن کو اپنے دور میں ہی باکمال شاعر مانا جاتا تھا۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ 1862ء میں سینٹ سٹیون کالج دہلی نے ’نگارستانِ سخن‘ کے نام سے تین شعرا کے کلام پر مبنی ایک گلدستہ شائع کیا تھا، جس میں غالب اور ذوق کے ساتھ مومن کو شامل کیا گیا تھا۔
درست ہے کہ اپنے معاصرین میں مومن نے غزل گوئی میں ایک نئی طرز نکالی تھی اور وہ اس طرز کے موجد بھی تھے اور خاتم بھی۔ یہی وجہ ہے کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود مومن کے کلام پر گرد نہیں جم سکی ہے۔ مومن کے کچھ اشعار۔
دیدہ حیراں نے تماشا کیا
دیر تلک وہ مجھے دیکھا کیا
زندگی ہجر بھی اک موت تھی
موت نے کیا کار مسیحا کیا
یہ عذر امتحان جذب دل کیسا نکل آیا
میں الزام اس کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا
اثر اس کو ذرا نہیں ہو تا
رنج راحت فزانہیں ہو تا
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہو تا
حال دل یار کو لکھوں کیوں کر
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہو تا
برق کا آسمان پر ہے دماغ
پھونک کر میرے آشیانے کو
ناوک انداز جدھر دیدہ جاناں ہو ں گے
میم بسمل کئی ہوں گے کئی بے جاں ہوں گے
تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے
ہم تو کل خواب عدم میں شب ہجراں ہو ں گے
یاپھر ان کی مشہور ترین غزل کے اشعار
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد کو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ نئے گلے و ہ شکایتیں و ہ مزے مزے کی حکایتیں
وہ ہر ایک بات پر روٹھنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی بیٹھے سر میں جو رو برو تواشارتوں میں ہی گفتگو
وہ بیان شوق کابر ملا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے با وفا
میں وہی ہوں مومن مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
بشکریہ وائس آف امریکہ
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔