Pages

Tuesday, November 21, 2017

وزیر اغا

درخت دن رات کانپتے ہیں
پرند کتنے ڈرے ہوئے ہیں
فلک پہ تارے زمیں پہ جگنو
گھروں کے اندر چھپے خزانے
کٹے پھٹے سب بدن پرانے
قدیم چکنی طویل ڈوری میں بندھ گئے ہیں
کثیف ڈر کی غلیظ مٹھی میں آ گئے ہیں
کہاں گئے وہ دلوں کے بندھن
گلاب ہونٹوں کی نرم قوسیں
زمیں جو راکھی سی بن کے
سورج کے ہاتھ پر مسکرا رہی تھی
کہاں گئی وہ ہوا جو پینگیں بڑھا رہی تھی
وہ سبز خوشبو جو بند نافع
گلی گلی پھر کے بانٹتی تھی
وہ ہاتھ تھامے
نحیف جسموں کی ایک لمبی قطار جس میں
کہیں بھی کوئی تڑخ نہیں تھی
یہ کون ہیں ہم
جو سہمے پیڑوں
ڈرے پرندوں لرزتے تاروں
سے بندھ گئے ہیں
خود اپنے سایوں سے ڈر گئے ہیں

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔