Pages

Tuesday, November 21, 2017

سورج کا زرہ بکتر


سورج کا زرہ بکتر 
چمکا تو میں گھبرایا 

ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے 
لہراتا ہوا نیزہ 

کوندے کی طرح آیا 
میں درد سے چلایا 

ہونٹوں نے پڑھے منتر 
سیماب سی پوروں نے 

اک پوٹلی ابرک کی 
چھڑکی مرے چہرے پر 

اور کرنوں کا اک چھینٹا 
مارا مری آنکھوں پر 

آنکھیں مری چندھیائیں 
کچھ بھی نہ نظر آیا 

جب آنکھ کھلی میری 
دیکھا کہ ہر اک جانب 

زرتار سی کرنوں کا 
اک زرد سمندر تھا 

اور زرد سمندر میں 
چاندی کی پہاڑی پر 

میں پیڑ تھا سونے کا 
شاخوں میں مری ہر سو 

جھنکار تھی پتوں کی 
اڑتی ہوئی چڑیوں کی 

یا آگ کی ڈلیوں کی 
اک ڈار سی آئی تھی 

اور مجھ میں سمائی تھی 
قدموں کے تلے میرے 

زنجیر تھی لمحوں کی 
میرے زرہ بکتر سے 

جو کوندا لپکتا تھا 
تاروں کے جھروکوں تک 

پل بھر میں پہنچتا تھا 
میں جسم کے مرقد سے 

باہر بھی تھا اندر بھی 
میں خود ہی پہاڑی تھا 
اور خود ہی سمندر بھی

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔