سورج کا زرہ بکتر
چمکا تو میں گھبرایا
ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے
لہراتا ہوا نیزہ
کوندے کی طرح آیا
میں درد سے چلایا
ہونٹوں نے پڑھے منتر
سیماب سی پوروں نے
اک پوٹلی ابرک کی
چھڑکی مرے چہرے پر
اور کرنوں کا اک چھینٹا
مارا مری آنکھوں پر
آنکھیں مری چندھیائیں
کچھ بھی نہ نظر آیا
جب آنکھ کھلی میری
دیکھا کہ ہر اک جانب
زرتار سی کرنوں کا
اک زرد سمندر تھا
اور زرد سمندر میں
چاندی کی پہاڑی پر
میں پیڑ تھا سونے کا
شاخوں میں مری ہر سو
جھنکار تھی پتوں کی
اڑتی ہوئی چڑیوں کی
یا آگ کی ڈلیوں کی
اک ڈار سی آئی تھی
اور مجھ میں سمائی تھی
قدموں کے تلے میرے
زنجیر تھی لمحوں کی
میرے زرہ بکتر سے
جو کوندا لپکتا تھا
تاروں کے جھروکوں تک
پل بھر میں پہنچتا تھا
میں جسم کے مرقد سے
باہر بھی تھا اندر بھی
میں خود ہی پہاڑی تھا
اور خود ہی سمندر بھی
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔