Pages

Tuesday, May 29, 2018

نِت نئے رنگ سے دیتا ہے مجھے یار سزا


نِت نئے رنگ سے دیتا ہے مجھے یار سزا
اُس کی نفرت کے نثار اور مرا پیار سزا


میں جو تڑپوں تو ترے نام کی پھر آہ بھروں
دے کے زحمت ہوئی تجھکو، مجھے بے کار سزا


کچھ سجھائی نہیں دیتا اُسے جب میرے لیے
مجھکو دے دیتا ہے ہو ہو کے وہ بے زار، سزا


حکم یہ تھا سرِ مقتل بھی نہ آنکھیں چھلکیں
بن گیا میرے لیے بس مِرا انکار سزا


صورتِ حال کوئی بھی ہو، ہمی مجرم ہیں
اُن سے ملنا بھی سزا، دور سے دیدار سزا


زین آخر یہ شناسائی ہی ممکن ٹھہری
سو ہماری بنی آخر یہی غم خوار سزا


زینؔ شکیل
مکمل تحریر >>

مری زندگی پہ نہ مسکرا، میں اداس ہوں!


مری زندگی پہ نہ مسکرا، میں اداس ہوں!
مرے گمشدہ مرے پاس آ، میں اداس ہوں!


کسی وصل میں بھی بقائے سوزشِ ہجر ہے
غمِ عاشقی ذرا دور جا، میں اداس ہوں!


میں منڈیرِ درد پہ جل رہا ہوں چراغ سا
مری لو بڑھا مجھے مت بجھا، میں اداس ہوں!


مرے حافظے کا یہ حال وجہ ملال ہے
مرے چارہ گر مجھے یاد آ، میں اداس ہوں!


سبھی لوگ شہر میں آئینے کے کفیل ہیں
مجھے آ کے چہرہ مرا دِکھا ،میں اداس ہوں!


ترا مسکرانا زوال ہے مرے درد کا
یونہی بات بات پہ مسکرا ،میں اداس ہوں!


مرے لب تھے زین کسی دعا سے سجے ہوئے
مجھے لگ گئی کوئی بد دعا، میں اداس ہوں


زینؔ شکیل
مکمل تحریر >>

Wednesday, November 22, 2017

احسان دانش

لوگ يوں ديكھ كر ہنس ديتے ہيں
تو مجھے بھول گيا ہو جيسے
موت بھی آئی تو اس ناز كے ساتھ
مجھ پہ احسان كيا ہو جيسے
احسان دانش
مکمل تحریر >>

Tuesday, November 21, 2017

لو رات کی بات تمام ہوئی
اب دن کی باتیں کرتے ہیں
سب خواب تماشے دھول ہوئے
اور جگنو تارے دیپ سبھی
پرکاش کے پھیلے ساگر میں
چمکاٹ دکھانا بھول گئے
اک چاند کہ شب بھر ساتھ رہا
وہ چاند بھی گر کر ٹوٹ گیا
لو رات کی بات تمام ہوئی
اب دن کی باتیں کرتے ہیں
پھولوں کے سوجے چہروں پر
شبنم کی چڑیاں اتری تھیں
ان چڑیوں پر ہم سورج کے
تیروں کا نشانہ تکتے ہیں
ادھ میچی اپنی پلکوں سے
ہم گلیوں اور بازاروں میں
سونے کے ریزے چنتے ہیں
اور داغوں دھبوں شکنوں سے
دیواریں کالی کرتے ہیں
پھر اجلے کاغذ پر لکھی
سب گندی خبریں پڑھتے ہیں
لو رات کی بات تمام ہوئی
اب دن کی باتیں کرتے ہیں
مکمل تحریر >>

سورج کا زرہ بکتر


سورج کا زرہ بکتر 
چمکا تو میں گھبرایا 

ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے 
لہراتا ہوا نیزہ 

کوندے کی طرح آیا 
میں درد سے چلایا 

ہونٹوں نے پڑھے منتر 
سیماب سی پوروں نے 

اک پوٹلی ابرک کی 
چھڑکی مرے چہرے پر 

اور کرنوں کا اک چھینٹا 
مارا مری آنکھوں پر 

آنکھیں مری چندھیائیں 
کچھ بھی نہ نظر آیا 

جب آنکھ کھلی میری 
دیکھا کہ ہر اک جانب 

زرتار سی کرنوں کا 
اک زرد سمندر تھا 

اور زرد سمندر میں 
چاندی کی پہاڑی پر 

میں پیڑ تھا سونے کا 
شاخوں میں مری ہر سو 

جھنکار تھی پتوں کی 
اڑتی ہوئی چڑیوں کی 

یا آگ کی ڈلیوں کی 
اک ڈار سی آئی تھی 

اور مجھ میں سمائی تھی 
قدموں کے تلے میرے 

زنجیر تھی لمحوں کی 
میرے زرہ بکتر سے 

جو کوندا لپکتا تھا 
تاروں کے جھروکوں تک 

پل بھر میں پہنچتا تھا 
میں جسم کے مرقد سے 

باہر بھی تھا اندر بھی 
میں خود ہی پہاڑی تھا 
اور خود ہی سمندر بھی
مکمل تحریر >>

وزیر اغا

درخت دن رات کانپتے ہیں
پرند کتنے ڈرے ہوئے ہیں
فلک پہ تارے زمیں پہ جگنو
گھروں کے اندر چھپے خزانے
کٹے پھٹے سب بدن پرانے
قدیم چکنی طویل ڈوری میں بندھ گئے ہیں
کثیف ڈر کی غلیظ مٹھی میں آ گئے ہیں
کہاں گئے وہ دلوں کے بندھن
گلاب ہونٹوں کی نرم قوسیں
زمیں جو راکھی سی بن کے
سورج کے ہاتھ پر مسکرا رہی تھی
کہاں گئی وہ ہوا جو پینگیں بڑھا رہی تھی
وہ سبز خوشبو جو بند نافع
گلی گلی پھر کے بانٹتی تھی
وہ ہاتھ تھامے
نحیف جسموں کی ایک لمبی قطار جس میں
کہیں بھی کوئی تڑخ نہیں تھی
یہ کون ہیں ہم
جو سہمے پیڑوں
ڈرے پرندوں لرزتے تاروں
سے بندھ گئے ہیں
خود اپنے سایوں سے ڈر گئے ہیں
مکمل تحریر >>

ڈاکٹر وزیر آغا

"ڈاکٹر وزیر آغا "


  آج اردو کے مشہور نقاد شاعر انشائیہ نگار" ڈاکٹر وزیر آغا" کی برسی ھے ۔
وکیپیڈیا سے

 اردو کے مشہور نقاد شاعر انشائیہ نگار۔
پیدائش18مئی 1922ء
۔۔انتقال 8 ستمبر2010

  • فہرست

  • 1 ابتدائی زندگی
  • 2 صحافت
  • 3 تحقیقی مقالے اور ان پر لکھی جانے والی کتابیں

  • ابتدائی زندگی
مکمل تحریر >>

Saturday, November 4, 2017

نہ کٹتي ہم سے شب جدائي کي

نہ کٹتي ہم سے شب جدائي کي
کتين ہي طاقت آزمائي کي

رشک دشمن بہانہ تھا سچ ہے
ميں نے ہي تم سے بے وفائي کي

کيوں برا کہتے ہو بھلا نا صح
مين نے حضرت سے کيا برائي کي

دام عاشق ہے دل دہي نہ ستم
دل کو چھينا تو دل رہائي کي

گر نہ بگڑو تو کيا بگڑتا ہے
مجھ ميں طاقت نہيں لڑائي کي

گھر تو اس ماہ وش کا دور نہ تھا
ليکن طالع نے نار سائي کي

دل ہوا خوں خيال ناخن يار
تو نے اچھي گرہ کشائي کي

مومن آئو تمہيں بھي دکھلا دوں
سير بت خانے ميں خدئي کي​
مکمل تحریر >>

Friday, November 3, 2017

ميں نے تم کو دل ديا، تم نے مجھے رسوا کيا

ميں نے تم کو دل ديا، تم نے مجھے رسوا کيا
ميں نے تم سے کي کيا، اور تم نے مجھے سے کيا کيا

کشتہ ناز بتاں روز ازل سے ہوں مجھے
جان کھونے کے لئے اللہ نے پيدا کيا

روز کہتا تھا کہيں مرتا نہيں ہم مر گئے
اب تو خوش ہو بے وفا تيرا ہي لے کہنا گيا

سر سے شعلے اٹھتے ہيں آنکھوں سے دريا جاري ہے
شمع سے يہ کس نے ذکر اس محفل آرا کا کيا

کيا خجل ہوں اب علا ج بے قراري کيا کروں
دھر ديا ہاتھ اس نے دل پر تو بھي دھڑکا کيا

عرض ايماں سے ضد اس غارت گر ديں کو بڑھي
تجھ سے اے مومن خدا سمجھے يہ تو نے کيا کيا​
مکمل تحریر >>

رہتے ہيں جمع کوچہ جاناں ميں خاص و عام

جلتا ہوں ہجر شاہد و ياد شراب ميں
شوق ثواب نے مجھے ڈال عذاب ميں

کہتے ہيں تم کو ہوش نہيں اضطراب ميں
سارے گلے تمام ہوئے اک جواب ميں

رہتے ہيں جمع کوچہ جاناں ميں خاص و عام
آباد ايک گھر ہے جہاں خراب ميں

بد نام ميرے گر يہ رسوا سے ہو چکے
اب عذر کيا رہا نگہ بے حجاب ميں

ناکاميوں سے کامک رہا عمر بھر ہميں
پري ميں ياس ہے جو ہوس تھي شباب ميں

دونوں کا ايک حال ہے يہ مدعا ہو کاش
وہ ہي خط اس نے بھيج ديا کيوں جواب ميں

تقدير بھي بري مري تدبير بھي بري
بگڑے وہ پر سش سبب اجتناب ميں

کيا جلوے ياد آئے کہ اپني خبر نہيں
بے بادہ مست ہوں ميں شب ماہ تاب میں

پيہم سجود پائے صنم پر دم و داع
مومن خدا کو بھول گئے اضطراب ميں​
مکمل تحریر >>

ہر غنچہ لب سے عشق کا اظہار ہے غلط

ہر غنچہ لب سے عشق کا اظہار ہے غلط
اس مبحث صحيح کي تکرار ہے غلط

کہنا پڑا درست کہ اتنا رہے لحاظ
ہر چند وصل غير کا انکار ہے غلط

کر تے ہيں مجھ سے دعوي الفت وہ کيا کريں
کيونکر کہيں مقولہ اغيار ہے غلط

يہ گرم جوشياں تري گو دل سے ہوں ولے
تاثير نالہ ہائے شرر بار ہے غلط

کرتے ہو مجھ سے راز کي باتين تم اس طرح
گويا کہ قول محرم اسرار ہے غلط

اٹھ جا کہا تلک کوئي باتيں اٹھائے گا
نا صح تو خود غلط تري گفتار ہے غلط

سچ تو يہ ہے کہ اس بت کافر کے دور ميں
لاف و گزاف مومن ديندار ہے غلط​
مکمل تحریر >>

Thursday, November 2, 2017

تھا بہت شوق وصل تو نے تو


دل ميں اس شوخ کے جو راہ نہ کي
ہم نے بھي جان دي پر آہ نہ کي 
تھا بہت شوق وصل تو نے تو
کمي اے حسن تاب کاہ نہ کي 
ميں بھي کچھ خوش نہيں وفا کر کے
تم نے اچھا کيا نباہ نہ کي 
محتسب يہ ستم غريبوں پر
کبھي تنبيہ بادشاہ نہ کي 
گريہ و آہ بے اثر دونوں 
کس نے کشتي مري تباہ نہ کي 
تھا مقدر ميں اس سے کم ملنا
کيوں ملاقات گاہ گاہ نہ کي 
ديکھ دشمن کو اٹھ گيا بے ديد
ميرے احوال پر نگاہ نہ کي 
مومن اس ذہن بے خطا پر حيف
فکر آمرزش گناہ نہ کي​
مکمل تحریر >>

دکھاتے آئينہ ہو اور مجھ ميں جان نہيں


دکھاتے آئينہ ہو اور مجھ ميں جان نہيں
کہو گے پھر بھي کہ ميں تجھ سا بد گمان نہيں

ترے فراق ميں آرام ايک آن ہيں
يہ ہم سمجھ چکے گر تو نہيں تو جان نہيں

نہ پوچھو کچھ مرا احوال مري جاں مجھ سے
يہ ديکھ لو کہ مجھے طاقت بيان نہيں

يہ گل ہيں داغ جگر کے انہيںں سمجھ کر چھيڑ
يہ باغ سينہ عاشك گلستان نہيں

شب فراق ميں پہنچي نہ دل سے جان تلک
کہيں اجل بھي تو مجھ سي ہي ناتوان نہيں

وہ حال پوچھے ہے ميں چشم سرمگيں کو ديکھ
يہ چپ ہوا ہوں کہ گويا مري زبان نہيں

نکل کے دير سے مسجد ميں جا رہ اے مومن
خدا کا گھر تو ہے تيرے اگر مکان نہيں
مکمل تحریر >>