نِت نئے رنگ سے دیتا ہے مجھے یار سزا
اُس کی نفرت کے نثار اور مرا پیار سزا
میں جو تڑپوں تو ترے نام کی پھر آہ بھروں
دے کے زحمت ہوئی تجھکو، مجھے بے کار سزا
کچھ سجھائی نہیں دیتا اُسے جب میرے لیے
مجھکو دے دیتا ہے ہو ہو کے وہ بے زار، سزا
حکم یہ تھا سرِ مقتل بھی نہ آنکھیں چھلکیں
بن گیا میرے لیے بس مِرا انکار سزا
صورتِ حال کوئی بھی ہو، ہمی مجرم ہیں
اُن سے ملنا بھی سزا، دور سے دیدار سزا
زین آخر یہ شناسائی ہی ممکن ٹھہری
سو ہماری بنی آخر یہی غم خوار سزا
زینؔ شکیل