Pages

Wednesday, November 22, 2017

احسان دانش

لوگ يوں ديكھ كر ہنس ديتے ہيں
تو مجھے بھول گيا ہو جيسے
موت بھی آئی تو اس ناز كے ساتھ
مجھ پہ احسان كيا ہو جيسے
احسان دانش
مکمل تحریر >>

Tuesday, November 21, 2017

لو رات کی بات تمام ہوئی
اب دن کی باتیں کرتے ہیں
سب خواب تماشے دھول ہوئے
اور جگنو تارے دیپ سبھی
پرکاش کے پھیلے ساگر میں
چمکاٹ دکھانا بھول گئے
اک چاند کہ شب بھر ساتھ رہا
وہ چاند بھی گر کر ٹوٹ گیا
لو رات کی بات تمام ہوئی
اب دن کی باتیں کرتے ہیں
پھولوں کے سوجے چہروں پر
شبنم کی چڑیاں اتری تھیں
ان چڑیوں پر ہم سورج کے
تیروں کا نشانہ تکتے ہیں
ادھ میچی اپنی پلکوں سے
ہم گلیوں اور بازاروں میں
سونے کے ریزے چنتے ہیں
اور داغوں دھبوں شکنوں سے
دیواریں کالی کرتے ہیں
پھر اجلے کاغذ پر لکھی
سب گندی خبریں پڑھتے ہیں
لو رات کی بات تمام ہوئی
اب دن کی باتیں کرتے ہیں
مکمل تحریر >>

سورج کا زرہ بکتر


سورج کا زرہ بکتر 
چمکا تو میں گھبرایا 

ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے 
لہراتا ہوا نیزہ 

کوندے کی طرح آیا 
میں درد سے چلایا 

ہونٹوں نے پڑھے منتر 
سیماب سی پوروں نے 

اک پوٹلی ابرک کی 
چھڑکی مرے چہرے پر 

اور کرنوں کا اک چھینٹا 
مارا مری آنکھوں پر 

آنکھیں مری چندھیائیں 
کچھ بھی نہ نظر آیا 

جب آنکھ کھلی میری 
دیکھا کہ ہر اک جانب 

زرتار سی کرنوں کا 
اک زرد سمندر تھا 

اور زرد سمندر میں 
چاندی کی پہاڑی پر 

میں پیڑ تھا سونے کا 
شاخوں میں مری ہر سو 

جھنکار تھی پتوں کی 
اڑتی ہوئی چڑیوں کی 

یا آگ کی ڈلیوں کی 
اک ڈار سی آئی تھی 

اور مجھ میں سمائی تھی 
قدموں کے تلے میرے 

زنجیر تھی لمحوں کی 
میرے زرہ بکتر سے 

جو کوندا لپکتا تھا 
تاروں کے جھروکوں تک 

پل بھر میں پہنچتا تھا 
میں جسم کے مرقد سے 

باہر بھی تھا اندر بھی 
میں خود ہی پہاڑی تھا 
اور خود ہی سمندر بھی
مکمل تحریر >>

وزیر اغا

درخت دن رات کانپتے ہیں
پرند کتنے ڈرے ہوئے ہیں
فلک پہ تارے زمیں پہ جگنو
گھروں کے اندر چھپے خزانے
کٹے پھٹے سب بدن پرانے
قدیم چکنی طویل ڈوری میں بندھ گئے ہیں
کثیف ڈر کی غلیظ مٹھی میں آ گئے ہیں
کہاں گئے وہ دلوں کے بندھن
گلاب ہونٹوں کی نرم قوسیں
زمیں جو راکھی سی بن کے
سورج کے ہاتھ پر مسکرا رہی تھی
کہاں گئی وہ ہوا جو پینگیں بڑھا رہی تھی
وہ سبز خوشبو جو بند نافع
گلی گلی پھر کے بانٹتی تھی
وہ ہاتھ تھامے
نحیف جسموں کی ایک لمبی قطار جس میں
کہیں بھی کوئی تڑخ نہیں تھی
یہ کون ہیں ہم
جو سہمے پیڑوں
ڈرے پرندوں لرزتے تاروں
سے بندھ گئے ہیں
خود اپنے سایوں سے ڈر گئے ہیں
مکمل تحریر >>

ڈاکٹر وزیر آغا

"ڈاکٹر وزیر آغا "


  آج اردو کے مشہور نقاد شاعر انشائیہ نگار" ڈاکٹر وزیر آغا" کی برسی ھے ۔
وکیپیڈیا سے

 اردو کے مشہور نقاد شاعر انشائیہ نگار۔
پیدائش18مئی 1922ء
۔۔انتقال 8 ستمبر2010

  • فہرست

  • 1 ابتدائی زندگی
  • 2 صحافت
  • 3 تحقیقی مقالے اور ان پر لکھی جانے والی کتابیں

  • ابتدائی زندگی
مکمل تحریر >>

Saturday, November 4, 2017

نہ کٹتي ہم سے شب جدائي کي

نہ کٹتي ہم سے شب جدائي کي
کتين ہي طاقت آزمائي کي

رشک دشمن بہانہ تھا سچ ہے
ميں نے ہي تم سے بے وفائي کي

کيوں برا کہتے ہو بھلا نا صح
مين نے حضرت سے کيا برائي کي

دام عاشق ہے دل دہي نہ ستم
دل کو چھينا تو دل رہائي کي

گر نہ بگڑو تو کيا بگڑتا ہے
مجھ ميں طاقت نہيں لڑائي کي

گھر تو اس ماہ وش کا دور نہ تھا
ليکن طالع نے نار سائي کي

دل ہوا خوں خيال ناخن يار
تو نے اچھي گرہ کشائي کي

مومن آئو تمہيں بھي دکھلا دوں
سير بت خانے ميں خدئي کي​
مکمل تحریر >>

Friday, November 3, 2017

ميں نے تم کو دل ديا، تم نے مجھے رسوا کيا

ميں نے تم کو دل ديا، تم نے مجھے رسوا کيا
ميں نے تم سے کي کيا، اور تم نے مجھے سے کيا کيا

کشتہ ناز بتاں روز ازل سے ہوں مجھے
جان کھونے کے لئے اللہ نے پيدا کيا

روز کہتا تھا کہيں مرتا نہيں ہم مر گئے
اب تو خوش ہو بے وفا تيرا ہي لے کہنا گيا

سر سے شعلے اٹھتے ہيں آنکھوں سے دريا جاري ہے
شمع سے يہ کس نے ذکر اس محفل آرا کا کيا

کيا خجل ہوں اب علا ج بے قراري کيا کروں
دھر ديا ہاتھ اس نے دل پر تو بھي دھڑکا کيا

عرض ايماں سے ضد اس غارت گر ديں کو بڑھي
تجھ سے اے مومن خدا سمجھے يہ تو نے کيا کيا​
مکمل تحریر >>

رہتے ہيں جمع کوچہ جاناں ميں خاص و عام

جلتا ہوں ہجر شاہد و ياد شراب ميں
شوق ثواب نے مجھے ڈال عذاب ميں

کہتے ہيں تم کو ہوش نہيں اضطراب ميں
سارے گلے تمام ہوئے اک جواب ميں

رہتے ہيں جمع کوچہ جاناں ميں خاص و عام
آباد ايک گھر ہے جہاں خراب ميں

بد نام ميرے گر يہ رسوا سے ہو چکے
اب عذر کيا رہا نگہ بے حجاب ميں

ناکاميوں سے کامک رہا عمر بھر ہميں
پري ميں ياس ہے جو ہوس تھي شباب ميں

دونوں کا ايک حال ہے يہ مدعا ہو کاش
وہ ہي خط اس نے بھيج ديا کيوں جواب ميں

تقدير بھي بري مري تدبير بھي بري
بگڑے وہ پر سش سبب اجتناب ميں

کيا جلوے ياد آئے کہ اپني خبر نہيں
بے بادہ مست ہوں ميں شب ماہ تاب میں

پيہم سجود پائے صنم پر دم و داع
مومن خدا کو بھول گئے اضطراب ميں​
مکمل تحریر >>

ہر غنچہ لب سے عشق کا اظہار ہے غلط

ہر غنچہ لب سے عشق کا اظہار ہے غلط
اس مبحث صحيح کي تکرار ہے غلط

کہنا پڑا درست کہ اتنا رہے لحاظ
ہر چند وصل غير کا انکار ہے غلط

کر تے ہيں مجھ سے دعوي الفت وہ کيا کريں
کيونکر کہيں مقولہ اغيار ہے غلط

يہ گرم جوشياں تري گو دل سے ہوں ولے
تاثير نالہ ہائے شرر بار ہے غلط

کرتے ہو مجھ سے راز کي باتين تم اس طرح
گويا کہ قول محرم اسرار ہے غلط

اٹھ جا کہا تلک کوئي باتيں اٹھائے گا
نا صح تو خود غلط تري گفتار ہے غلط

سچ تو يہ ہے کہ اس بت کافر کے دور ميں
لاف و گزاف مومن ديندار ہے غلط​
مکمل تحریر >>

Thursday, November 2, 2017

تھا بہت شوق وصل تو نے تو


دل ميں اس شوخ کے جو راہ نہ کي
ہم نے بھي جان دي پر آہ نہ کي 
تھا بہت شوق وصل تو نے تو
کمي اے حسن تاب کاہ نہ کي 
ميں بھي کچھ خوش نہيں وفا کر کے
تم نے اچھا کيا نباہ نہ کي 
محتسب يہ ستم غريبوں پر
کبھي تنبيہ بادشاہ نہ کي 
گريہ و آہ بے اثر دونوں 
کس نے کشتي مري تباہ نہ کي 
تھا مقدر ميں اس سے کم ملنا
کيوں ملاقات گاہ گاہ نہ کي 
ديکھ دشمن کو اٹھ گيا بے ديد
ميرے احوال پر نگاہ نہ کي 
مومن اس ذہن بے خطا پر حيف
فکر آمرزش گناہ نہ کي​
مکمل تحریر >>

دکھاتے آئينہ ہو اور مجھ ميں جان نہيں


دکھاتے آئينہ ہو اور مجھ ميں جان نہيں
کہو گے پھر بھي کہ ميں تجھ سا بد گمان نہيں

ترے فراق ميں آرام ايک آن ہيں
يہ ہم سمجھ چکے گر تو نہيں تو جان نہيں

نہ پوچھو کچھ مرا احوال مري جاں مجھ سے
يہ ديکھ لو کہ مجھے طاقت بيان نہيں

يہ گل ہيں داغ جگر کے انہيںں سمجھ کر چھيڑ
يہ باغ سينہ عاشك گلستان نہيں

شب فراق ميں پہنچي نہ دل سے جان تلک
کہيں اجل بھي تو مجھ سي ہي ناتوان نہيں

وہ حال پوچھے ہے ميں چشم سرمگيں کو ديکھ
يہ چپ ہوا ہوں کہ گويا مري زبان نہيں

نکل کے دير سے مسجد ميں جا رہ اے مومن
خدا کا گھر تو ہے تيرے اگر مکان نہيں
مکمل تحریر >>

ناکامیوں میں تم نے جو تشبیہ مجھ سے دی


محشر میں پاس کیوں دمِ فریاد آگیا
رحم اس نے کب کیا تھا کہ اب یاد آگیا

الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں‌ صیّاد آگیا

ناکامیوں میں تم نے جو تشبیہ مجھ سے دی
شیریں کو درد تلخیِ فرہاد آگیا

ہم چارہ گر کو یوں ہی پہنائیں گے بیڑیاں
قابو میں اپنے گر وہ پری زاد آگیا

دل کو قلق ہے ترکِ محبت کے بعد بھی
اب آسماں کو شیوہء بے داد آگیا

وہ بدگماں ہوا جو کبھی شعر میں مرے
ذکرِ بتانِ خلخ و نوشاد آگیا

تھے بے گناہ جراءتِ پابوس تھی ضرور
کیا کرتے وہم خجلتِ جلاد آگیا

جب ہوچکا یقیں کہ نہیں طاقتِ وصال
دم میں ہمارے وہ ستم ایجاد آگیا

ذکرِ شراب و حور کلامِ خدا میں دیکھ
مومن میں کیا کہوں مجھے کیا یاد آگیا
مکمل تحریر >>

تم بھی رہنے لگے خفا صاحب

تم  بھی  رہنے  لگے خفا صاحب
کہیں  ساءیہ  مرا   پڑا   صاحب

ہے  یہ  بندہ  ہی  بے  وفا صاحب
غیر  اور  تم  بھلے ،  بھلا صاحب

کیوں الجھتے ہو جنبش لب سے
خیر  ہے  میں  نے کیا کیا صاحب

دم   آخر   بھی   تم   نہیں  آءیے
بندگی اب !   کہ میں چلا صاحب

ق۔کس پہ بگڑے تھے کس پہ غصہ تھا
رات تم  کس پہ تھے خفا صاحب

کس کو دیتے تھے گالیاں صاحب
کس کا شب ذکر خیر تھا صاحب

نام  عشق  بتاں  نہ  لو   مومن!
کیجیےء  بس  خدا  خدا   صاحب
مکمل تحریر >>

ہے صلح عدو بے خط، تھی جنگ غلط فہمی


ہم جان فدا کرتے ، گر وعدہ وفا ہوتا
مرنا ہی مقدر تھا ، وہ آتے تو کیا ہوتا

ایک ایک ادا سو سو، دیتی ہے جواب اسکے
کیونکر لبِ قاصد سے، پیغام ادا ہوتا

اچھی ہے وفا مجھ سے، جلتے ہیں جلیں دشمن
تم آج ہُوا سمجھو، جو روزِ جزا ہوتا

جنّت کی ہوس واعظ ، بے جا ہے کہ عاشق ہوں
ہاں سیر میں جی لگتا، گر دل نہ لگا ہوتا

اس تلخیِ حسرت پر، کیا چاشنیِ الفت
کب ہم کو فلک دیتا، گر غم میں مزا ہوتا

تھے کوسنے یا گالی، طعنوں کا جواب آخر
لب تک غمِ غیر آتا، گر دل میں بھرا ہوتا

ہے صلح عدو بے خط، تھی جنگ غلط فہمی
جیتا ہے تو آفت ہے، مرتا تو بلا ہوتا

ہونا تھا وصال اک شب، قسمت میں بلا سے گر
تُو مجھ سے خفا ہوتا، میں تجھ سے خفا ہوتا

ہے بے خودی دایم، کیا شکوہ تغافل کا
جب میں نہ ہوا اپنا، کیونکر وہ مرا ہوتا

اس بخت پہ کوشش سے، تھکنے کے سوا حاصل
گر چارۂ غم کرتا، رنج اور سوا ہوتا

اچھی مری بدنامی تھی یا تری رُسوائی
گر چھوڑ نہ دیتا، میں پامالِ جفا ہوتا

دیوانے کے ہاتھ آیا کب بندِ قبا اُس کا
ناخن جو نہ بڑھ جاتے، تو عقدہ یہ وا ہوتا

ہم بندگئی بت سے ہوتے نہ کبھی کافر
ہر جاے گر اے مومن موجود خدا ہوتا
مکمل تحریر >>

مومن خان مومن

مومن خاں حکیم نامدار خاں کے بیٹے حکیم غلام نبی خاں کے فرزند تھے۔حکیم نامدار خاں اور حکیم کامدار خاں نامی دو بھائی مغلیہ سلطنت کے آخری دور میں کشمیر سے آکر شاہی طبیبوں میں شامل ہو ئے تھے۔ والی ہنر شاہ عالم نے موضع بلاہا وغیرہ پرگنہ نرنول میں جاگیر عطا کی جسے بعد میں نواب فیض طلب خاں نے ضبط کر کے ہزار روپے پنشن حکیم نامدار خاں کے وارثوں کے نام مقرر کر دی ۔ مومن کی پیدائش 1800ءمیں کوچہ چیلان دہلی میں ہوئی۔ ان کے والد غلام نبی خاں کو شاہ عبدالعزیز دہلوی سے خاص عقیدت تھی۔ شاہ عبد العزیز دہلوی نے ہی تولد کے وقت ان کے کان میں اذان دی اورمومن خاں نام تجویز کیا۔ حالانکہ والد نے ان کا نام حبیب اللہ خاں رکھا تھا لیکن وہ شاہ صاحب کے دئے ہوئے نام سے ہی مشہور زمانہ ہوئے۔ 21مئی سنہ 1851ءکو داعیِ اجل کو لبیک کہا اور ان کا مدفن دلی دروازے کے باہر حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی رحمت اللہ علیہ کی درگاہ کے پاس ہے۔
مکمل تحریر >>